
بیوی کے پاس جانے سے پہلےیہ پڑھ لیں نیک اور نرینہ اولاد ہونےکیلئے انتہائی مجرب وظیفہ
دنیا میں ہر شریف اور ہر دیندار انسان کو پاک اور صالح اولاد پیدا کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔اور طبعاََ یہ خواہش ہماری جماعت کے افراد میں زیادہ پائی جانی چاہئیے کیونکہ وہ دینداری اور طہارت کی قدر کو دوسروں کی نسبت بہت زیادہ جانتے اور زیادہ پہچانتے ہیں۔مگر ظاہر ہے کہ کوئی بات محض خواہش سے حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ
اس کے حصول کے لئے ان روحانی اور جسمانی ذرائع کو اختیار نہ کیا جائے جو خدا کے ازلی قانون میں اس کے لئے مقرر کردئیے گئے ہیں۔اوپر کے اصول کے ماتحت غور کیا جائے تو اچھی اور پاک اولاد پیدا کرنے کے لئے دو قسم کے اسباب ضروری نظر آتے ہیں۔اوّل وہ اسباب جو بچہ کی پیدائش سے بھی پہلے سے اثر انداز ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔کیونکہ یہ ثابت ہے کہ بچہ اپنے ماں باپ کے رجحانات اور اخلاق سے حصہ لیتا ہے ۔اور دوم وہ اسباب جو بچہّ کی پیدائش کے بعد اس کی تعلیم وتربیت وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔مجھے اس جگہ مختصر طورپر صرف پہلی قسم کے اسباب کا ذکر کرنا مدنظر ہے جن کا تعلق زمانہ ماقبل ولادت کے ساتھ ہے۔سویہ اسباب بھی دوقسم کے ہیں۔
اوّل:وہ اسباب جو ماں باپ یا ان سے بھی پہلے کے آباؤاجداد کے اخلاق کا نتیجہ ہوتے ہیں کیونکہ اسلامی تعلیم سے پتہ لگتا ہے کہ فطری قویٰ اور فطری رجحانات کے لحاظ سے بچہ اپنے والدین اور والدین کے آبائو اجداد کے اخلاق کا وارث بنتا ہے۔چنانچہ جہاں قرآن شریف نے آنحضرت ﷺ کے اخلاق فاضلہ کا ذکر کیا ہے وہاں اس حقیقت کی طرف بھی ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ:وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ ( الشعراء: 219)یعنی اے رسول تو نسلاََ بعدَ نسلٍ ایسے لوگوں کی پشتوں میں سے نکلا ہے جو اخلاق کے میدان میں خدا کے بنائے ہوئے قانون پر چلتے رہے ہیں۔بے شک اس آیت کے اور معنی بھی ہیں لیکن اس میں یہ اشارہ بھی ضرور مضمر ہے جو اوپر بیان کیا گیاہے۔اور بعض پرانے مفسرین نے بھی اس اشارہ کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔
بہر حال یہ مسلّم ہے کہ بچہّ اپنے اخلاق میں اپنے والدین اور آبائو اجداد کا ورثہ لیتا ہے۔پس ضروری ہے کہ نیک اولاد پیدا کرنے کے لئے والدین اپنے اخلاق کو درست کریں اور اپنے اندر وہ پاک باطنی اور دینداری کا جذبہ پیدا کریں جس کا اثر لازماََ اولاد میں بھی پہنچتا ہے۔ دوسری قسم اسباب کی جو زمانہ ماقبل ولادت سے تعلق رکھتی ہے وہ ہے جس کا تعلق اس قلبی اور ذہنی کیفیت کے ساتھ ہے جو خاص خلوت کے اوقات میں خاوند اور بیوی میں پائی جاتی ہے اور دراصل اسی پہلو کی طرف اشارہ کرنا میرے اس مضمون کی غرض وغایت ہے۔یہ بات دینی اور طبّی ہر دو لحاظ سے ثابت ہے کہ بچہّ صرف والدین کے سابقہ اخلاق سے ہی حصّہ نہیں پاتا بلکہ اس وقت کے جذبات سے بھی حصّہ لیتا ہے کہ
جب خاوند اور بیوی اپنے مخصوص تعلق کی غرض سےاکٹھے ہوتے ہیں۔چنانچہ کچھ عرصہ ہوا یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ایک دفعہ ولایت میں ایک انگریز عورت کے گھر ایک ایسا بچہّ پیدا ہواجو اپنی شکل وصورت وغیرہ میں بالکل ایک حبشی بچّہ معلوم ہوتا تھا۔ اس پر علمی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں اور چونکہ عورت کی پاک دامنی شک وشبہ سے بالاتھی اس لئے وہ وجوہات تلاش کی جانے لگیں جن کے نتیجہ میں انگریز والدین کے بچہ نے حبشی خدوخال اور حبشی رنگ ڈھنگ اختیار کرلیا تھا۔آخر پتہ لگا کہ جس ہوٹل کے کمرہ میں یہ میاں بیوی اکٹھے ہوئے تھے اس میں ان کی چارپائی کے سامنے ایک انگریز اور حبشی مرد کی تصویر لٹکی ہوئی تھی۔یہ انگریز اور حبشی کشتی لڑ رہے تھے
اور تصویر میں حبشی مرد نے انگریز کو زمین پر گرا کر اس پر غلبہ پایا ہوا تھا۔ان دونو ںمیاں بیوی نے اس تصویر کو دیکھا اور اس نقشہ کا ان کے دل پر ایسا گہرا ثر پیدا ہوا کہ اس خلوت کے نتیجہ میں جو بچہّ پیدا ہوا وہ حبشی صورت اختیار کر گیا۔لیکن موجودہ زمانہ کے ترقی یافتہ لوگوں کی اس بیسویں صدی کی ایجاد کے مقابلہ پر ہمارے آقا ﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل یہ تعلیم دی تھی کی جب خاوند اور بیوی خلوت کی حالت میں اکٹھے ہوں تو انہیں چاہئے کہ اس وقت اپنے خیالات کو پاک بنانے کی غرض سے یہ دعا پڑھا کریں کہ : )یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جاتے ہوئے یہ دعا پڑھے گا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں اپنا ہر کام خدا کے نام پر شروع کرتا ہوں۔اے میرے خدا تو ہم دونو میاں بیوی کو شیطان کے اثر سے محفوظ رکھ اورجو اولاد تو ہمیں عطا کرے
اسے بھی شیطانی اثرات سے بچا کر رکھ ۔ تو اگر اس خلوت کے نتیجہ میں ان کے لئے کوئی بچہ مقدر ہوگا تو یہ بچہ خدا کے فضل سے ہمیشہ اس بات سے محفوظ رہے گا کہ شیطان اسے کوئی ضرر پہنچا سکے۔ دوستو یہ کتنا آسان نسخہ ہے جس کے ذریعہ آپ اپنی ہونے والی اولاد کو پاک بنا سکتے ہیں۔مگر کتنے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں؟اور اگر مرد کے ساتھ عورت بھی اس دعا میں شریک ہو جائے تو پھریہ سونے پر سہاگہ ہے۔پس میں یہ عرض کروں گا کہ اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزمالیں
Leave a Reply