
رابعہ کے چہرے کی رونک ختم ہو گئی رابعہ نے امان کی عادات کو حفظ کر
برسوں سے رابعہ کے چہرے کی رونق ماند پڑتی جاتی تھی ۔ یوں لگتا تھا کہ اس کے رخ پر صرف خزاں کا موسم مظہر گیا ہے ۔ اٹھائیس برس کی عمر کہنے کو کیا ہے پر اتنی سی عمر میں اس کی جوانی ڈھل گئی تھی ۔ آنکھیں ویران تھیں ، عارض اجاڑ تھے ۔ وہ سر تا پا پت جھٹر کا کمزور پیلا پتھ دکھائی دیتی تھی ۔ مسکراہٹ کی نئی کونپلیں ہونٹوں پر نمودار ہونے کا نام نہ لیتی تھیں ۔ آنکھوں کے گرد حلقوں کی حدود لا محدود ہوئی جاتی تھیں ۔ جھنجلاہٹ ، تناو اور راتوں کے جگراتے اس کے اعصاب کو تباہ کر چکے تھے ۔ پر کسی کو خبر نہ تھی کہ رابعہ کو کیا غم تھا ۔ لاکھ پونچھو پر کسی کی بھی کرید کچھ نہ کھوج پائی ۔ چ کیا تھا وہ تو بس رابعہ دل کے کسی کونے میں چھپاۓ بیٹھی تھی ۔ دس سال شادی کو بیت چکے تھے ۔ ان برسوں میں رابعہ
نے امان کی عادات و اطوار کو حفظ کر لیا تھا ۔ لیکن امان نے اس کو سمجھنے ، کھوجنے کی زحمت کبھی نہ کی تھی ۔ وہ ایسی کتاب کی مانند تھی جس کو بغیر پڑھے کھر کے کسی کونے میں رکھ دیا جاتا ہے ۔ جس کے اوراق ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ چسپاں رہتے ہیں ۔ اسے بھی چاہے جانے کی آرزو تھی ۔ اس تمنا نے اس کے دل و دماغ کو سوالات سے بھر ڈالا تھا ۔ امان کی ذات اس کے لیے سوالیہ نشان بن کر رہ گئی تھی ۔ کسی بھی بات پر کیا ، کیوں ، کب ، کیسے جیسی جرح کرنے پر پابندی عائد تھی ۔ دن میں دو چار ضرورت کے جملوں کے علاوہ امان رابعہ سے بات کرنے کی زحمت نہ کرتا ۔ برسوں سے امان ایک مانوس اجنبی کی طرح رابعہ کے ساتھ زندگی کے سفر پر گامزن تھا ۔ امان کا من موہنے کے لیے رابعہ ہر ممکن کوشش کرتی ۔ امان کا من موہنے کے لیے رابعہ ہر ممکن کوشش کرتی ۔ اسے بھی چاہے جانے کی آرزو تھی ۔ وہ اسکے پیار بھرے لمس کو ترستی تھی ۔ ان کے درمیان نہ تو مسافتوں کی دوری تھی اور نہ طلاق یا علیحد گی جیسی دیوار تھی ۔ نہ کوئی ایسی بیماری لاحق تھی جو ایک دوسرے کے ملاپ کو روکے بیٹھی ہو ۔ چھ فٹ کے بستر پر برسوں کے فاصلے حائل تھے ۔
امان کی روز کی عادت تھی کہ وہ نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے گھنٹوں الگ کمرے میں فلمیں دیکھنے میں مگن رہتا ۔ ان فلموں کی خاصیت یہ تھی کہ سب میں ایک ہی کہانی تھی بس کر دار مختلف تھے ۔ ہر گزرتے دن امان رابعہ سے دور ہوتا گیا ۔ گھر ہوتا بھی تو اس کی خود لذتی اسی تک محدود رہتی ۔ رابعہ آزمائشوں کے بھنور میں پھنسی بس ہاتھ پیر مارتی رہی پر باہر نکلنے کے سب راستے مسدود تھے ۔ ہوتے ہوتے رابعہ اور امان کے جسمانی تعلقات نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے ۔ رابعہ اس تعلق کو قائم کرنے کے لیے بار بار اپنے شوہر کی جانب بڑھتی ۔ ہر بار اس کے بڑھتے ہوۓ ہاتھ کو حقارت سے حجٹک دیا جاتا ۔ بس امان ایک ماہ میں ایک آدھی بار رابعہ کی جانب بڑھتا ۔ اپنے منہ کا ذائقہ بدلتا اور پھر اپنی عادت کا اسیر ہو جاتا ۔ رات بھر رابعہ بستر پر کروٹیں لیتے لیتے اپنی خواہشات کو مارنے کی کوشش کرتی ۔ امان رات گئے کمرے میں دبے پاوں اپنی جسمانی خواہشات کی تسکین کے بعد قدم رکھتا ۔ وہ پو را ماہ اس رات کی منتظر رہتی جب امان اس کی جانب پلٹتا ۔ جب وہ اس کو چھوتا تو وہ اس طرح سمٹ جاتی جیسے وہ اس کا ہی حصہ ہو ۔ رابعہ کی رگوں میں خون تیز گام کی طرح دوڑ تا ۔ سانسوں کے اتار چڑھاو کو کمرے کے درو دیوار بھی سن پاتے ۔ اس کے جسم کی گرماہٹ میں تیزی سے اضافہ ہوتا ۔ برف کی طرح وہ اسکے ہاتھوں میں پگھل جاتی ۔ چوڑیوں کی
کھنک میں اسے سات سر سنائی دیتے ۔ ان سارے ے لمحوں میں امان کی بے رخی کے جواب میں وہ اپنی انا کو حائل نہ کر پاتی ۔ وہ اس کی گود میں اس کے من چاہے کچل کی طرح گر جاتی ۔ اس کا ہوش سے مدد ہوشی کی جانب سفر چند لمحوں میں طے ہو جاتا ۔ امان کا ایک پیار بھرا لمس اس کو خود سے بے خود کرنے کے لیے کافی ہوتا ۔ اس کی آنکھوں میں مستی بھلئے لگتی ۔ جس جس طرح نچونے کا احساس پڑھتا وہ آنکھیں لگتی ۔ جس جس طرح چونے کا احساس پڑھتا وہ آنکھیں بند گئے ان لمحوں میں جینے لگتی ۔ اپنے دل کی ہر چلتی دھڑکن کو اس کے حوالے کر کے اس میں ڈوبنے کے احساس کا مزا لیتی ۔ اس رفاقت ، قربت کے سفر کے لیے اسے دنوں سے ہفتوں اور پھر مہینوں کا انتظار کرنا پڑتا ۔ فلموں کی طرح پلک جھپکتے نہ کئے زندگی کے لیے تھے ۔ اس نے لمبے دن گزارے تھے اور طویل راتیں سر کی تھیں ۔ اس نے اپنی شوھر کی لاتعلقی کو ایک ایک میں محسوس کیا تھا ۔ اب سلسلہ دنوں مہینوں پر محیط نہ رہا تھا ۔ بات برسوں تک ان پہنچی تھی ۔ کچھ فٹ کے بستر پر برسوں کے فاصلے حائل ہو چکے تھے ۔ رابعہ بھی اپنی بستر پر تذلیل کرو کروا کے تھک چکی تھی ۔ امان اس احساس سے عاری تھا کہ رابعہ کی جسمانی تسکین اس کا حق ہے جو فطرت نے اس کے اندر پیدا کی ہے ۔ اب مدتوں سے
رابعہ کی طرف سے بھی خاموشی تھی ۔ لیکن اس کو مچوۓ جانے کا ارمان دل میں مچلتا تھا ۔ لاکھ جھٹکنے کے باوجود بھی اس احساس کو دفن نہ کر پاتی تھی ۔ اس نے زندگی کے دس سال پل صراط پر چل کر گزارے تھے ۔ پل صراط پر چلتے چلتے کب اس کے پاوں ڈگمگاۓ اس کو خبر ہی نہ ہوئی ۔ ندامت کے احساس نے اسے اپنے رب کی عدالت میں لا کھڑا کیا تھا ۔ آج وہ مصلے پر بیٹھی اپنی اس تجول کی معافی مانگ رہی تھی ۔ وہ ایک بہت بڑا گناہ کر بیٹھی تھی ۔ وہ اپنی برسوں کی تذلیل کا بدلا کسی اور کے بستر پر اتار آئی تھی ۔ اس کی سمجھ میں ایک بات نہیں آ رہی تھی کہ جب بھی وہ اپنے رب سے معافی کی طلب گار ہوتی ہے تو اس کی آنکھوں کے سامنے ارمان کا چہرہ ۔ کیوں نمودار ہو جاتا ہے ۔
Leave a Reply