
باپ کے گھر جانے سے بیوی کو طلاق
ایک شخص کسی وجہ سے اپنے سر سے ناراض رہتا تھا جب وہ کاروبد کے سلسلے میں شہر سے باہر جانے لگا تو اس نے اپنی بیوی پر پابندی لگا دی اور کہا کہ اگر تم میری غیر موجودگی میں اپنے باپ کے گھر گئی تو میری طرف سے تجھے تین طلاق ہیں ۔ یہ کہہ کر وہ شخص چلا گیا ۔ بیوی سختی سے شوہر کی ہدایات پر عمل کرتی رہی ۔ اسی اثنا میں اس کا باپ شدید پیار ہو گیا گھر والوں
نے اسے اطلاع دی مگر وہ شوہر کے حکم سے مجبور تھی یہاں تک کہ اس کے باپ کا آخری وقت قریب آ گیا ۔ ماں نے پیغام بھیجاد بھائیوں نے اصرار کیا لیکن وہ اپنے مکان کی چار دیوری سے باہر نہیں نکلی پھر کچھ دن بعد اسے اطلاع ملی کہ اس کا باپ دنیا سے گزر گیا ہے اس نے یہ صدمہ برداشت کرنے کی کوشش کی لیکن بہرحال ایک کمزور دل عورت تھی
جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور باپ کی میت کا آخری دیدار کرنے کے لئے گھر سے نکل پڑی دفن میں شرکت کی اور پھر فوراً ہی واپس آگئی ۔ تین چار ماہ کے بعد جب اس کا شوہر لوٹ آیا تو اسے سر کے انتقال کی خبر ملی پہلے اس نے بیوی سے معلوم کیا تو اس نے سچائی کے ساتھ اقرار کیا کہ صرف دفن کی رسم میں شریک ہونے کے لیے آپ کے گھر گئی تھی شوہر ایک عقلمند شخص تھا اس نے بیوی کے جذبات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا کہ سنگین باپ
حالات میں بھی اس نے حکم کی پابندی کی لیکن باپ کے انتقال کے صدمے کو برداشت نہ کر سکی یہ ایک اضطراری فعل تھا نظر انداز کیا جا سکتا تھا مگر شوہر ے مطابق طلاق ہو ہی کو شوہر کو اس واقعے کا بے حد افسوس تھا دراصل یہ بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ اس کے شہر سے باہر جاتے ہی حادثاتی طور پر اس کے سر کا انتقال ہو جاۓ کی شرط
گا ۔ مجبورا شوہر نے بیوی کو گھر سے رخصت کر دیا اور اس وقت کے تمام علماء کرام سے اس معاملے میں رجوع کیا ہر نام کا ایک ہی جواب تھا کہ طلاق ہو چکی ہے شرط کے ٹوٹتے ہی طلاق واقع ہو جانا ایک فطری عمل تھا وہ بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اور شریعت اسے ازدواجی تعلق قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی ۔ ایک عجیب کشمکش تھی بظاہر اس مسئلے کا کوئی حل
نظر نہیں آرہا تھا آخر ایک دن کسی نے اسے رائے دی کہ وہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے اپنی مشکل بیان کرے شوہر کو یہاں بھی اپنے حق میں فیصلے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی تھی لیکن نہ پھر بھی وہ نام کی بارگاہ میں پہنچ گیا ۔ تھوڑی خاموشی کے بعد نام صاحب نے فرمایا طلاق واقع نہیں ہوئی وہ اب بھی تمہاری بیوی ہے تم کسی کفرہ کے بغیر اس سے
از دوری تعلق قائم رکھ سکتے ہو یہ سننے کے بعد اس کی خوشی نہ قابل بیان تھی وہ نام رحمۃ اللہ علیہ کے علم و فضل کی تعریف کرتا ہوا رخصت ہو گیا ۔ پھر چند ہی دنوں میں یہ بات زبان پر عام ہو گئی کہ جس مسئلے کا حل تلاش کرنے میں سدے علماء کرام ناکام رہے اسے نام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے آسانی سے حل کر دیا پھر ایک مرتبہ یہ بات مشہور ہو گئی کہ نام رحمہ اللہ
علیہ اپنے قیاس کی بنیاد پر غلط فیصلے دیتے ہیں جب بعض علماء نے حضرت امام ابوحنیفہ سے وضاحت طلب کی تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے انتہائی عجز و انکسل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایلہ موت کے بعد انسان کا دنیا سے تعلق ختم ہو جاتا ہے یہاں تک کہ دولت اور جائیداد پر بھی اس کا کوئی حق باقی نہیں رہتا جب وہ عورت اپنے شوہر کی نافرمانی کرتے ہوۓ اپنے باپ کے گھر گئی تو حقیقت
میں وہ مکان اس کے باپ کی ملکیت نہیں رہا تھا انتقال کے بعد وہ خود ہی وراثت میں ایک قانونی حصہ دار تھی لہذا اس نے باپ کے مکان میں نہیں بلکہ اپنے ہی مکان میں قدم رکھا اس طرح عورت کے فعل پر شوہر کی علا کردہ شرائط کا اطلاق نہیں ہو گا اور نکاح ہر صورت میں برقرار رہے گا یہ نقطہ سن کر تمام علماء حیران رہ گئے اور بعض کی زبان سے نکلا اللہ اس میدان میں کوئی شخص امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے ہمسری نہیں کر سکتا ۔
Leave a Reply