اس رات میرا 14 سالہ دیور ہی میرا شوہر بن بیٹھا

کبھی قسمت ہمیں اس موڑ پر لے آتی ہے جب ہم بے بس ہو جاتے ہیں ۔ وہ بھی اس قدر کہ ہمیں صرف اور صرف دوسروں کے اشاروں پر سر جھکانا پڑتا ہے ۔ ہماری کوئی بھی مرضی یا ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا آج بھی اس موڑ پر کھڑی ہوں ۔ میرے سامنے 14 سال کا لڑکا ہے جسے میں کل تک بھائی سمجھتی تھی ۔ اور آج جن نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا ہے دل چاہتا ہے ۔ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں ۔

کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ میں بے بسی کی سرحد پر ہوں ۔ مجھے اپنا آپ اس کے حوالے ہر صورت کرنا ہی کرنا ہے ۔ چاہے میں روئوں چیخوں چلائوں کو مگر کوئی میری فریاد نہیں سنے گا ۔ میں 28 سال کی ہوں اور وہ مجھ سے آدھی عمر یعنی چودہ سال کا ہے ۔ وہ مجھے دیکھ رہا ہے اور میں اپنے اندر نامعلوم کتنی جنگیں لڑ رہی ہوں ۔ میں جانتی ہوں ہر محاذ سے شکست کھا کر مجھے اسی کے حکم پر سر جھکانا پڑے گا ۔ مگر کیوں اس کیوں کے جواب کے لئے ۔

آپ کو میری کہانی سننا پڑے گی مجھے بتائے گا کہ قصور کس کا تھا میرا نام بانو ہے ۔

میں ایک قصبہ نما گاؤں میں رہتی ہوں ۔ جب میں جوان ہوئی میرے ابو کو میری شادی کی فکر ستانے لگی ۔ شوکت ہمارے ہی گاؤں کا گبرو جوان تھا اور رکشہ چلاتا تھا ۔ میں چند ایک بار اس کے رکشے میں اپنی ماں کے ساتھ ںیٹھ چکی تھی ۔ میں نے غور کیا وہ سامنے لگے شیشے سے میری طرف دیکھتا ہے ۔ عورت اپنے اوپر اٹھنے والے ہر نظر پہچانتی ہے ۔ میں نے شوکت کی نگاہوں میں اپنے لیے محبت دیکھی تھی ۔ پھر ایک دن اس کی ماں ہمارے گھر چلی آئی۔

اس کی گود میں ڈیڑھ سالہ گول مٹول بچہ تھا ۔ بچے کا نام برکت علی تھا اور وہ شوکت کا چھوٹا بھائی تھا ۔ اس کی ماں نے بتایا کہ وہ شوکت سے پورے سترہ سال چھوٹا ہے ۔ وہ منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوا ہے اسی لئے اس کا نام برکت علی رکھا گیا ہے ۔ لیکن برکت کی پیدائش کے دو ماہ بعد اس کے والد کی وفات ہوگئی ۔ اب شوکت پڑھائی چھوڑ کر گھر کا خرچہ پورا کرنے کے لیے رکشہ چلاتا ہے ۔ اور شوکت کے لیے میرا رشتہ لے کر آئی تھی ۔

لیے میرا رشتہ لے کر آئی تھی ۔

میں اس دن بہت خوش تھی ہم غریبوں کے گھر محنت کش کا رشتہ آنا بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا ۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ شوکت کے گاؤں کے چوہدریوں کے ہاں بھی بڑے عزت تھی ۔ اور میں بھی اپنی سہیلی سے اترآئی اترائی پھرتی تھی ۔ پھر وہ دن آگیا جب شوکت مجھے دلہن بنا کر اپنے گھر لے گیا ۔ اس کا گھر بھی ہمارے گھر کی طرح چھوٹا تھا ۔ مگر میں سمجھتی تھی جس جگہ پہ محبت ہو وہاں پر سب سانوی ہو جاتا ہے ۔

پہلی رات جس کے بارے میں لڑکیاں بہت خواب بنتی ہیں ۔اس رات میرا 14 سالہ دیور ہی میرا شوہر بن بیٹھا

میں نے بھی اس رات کے بارے میں بہت سوچا تھا ۔ میں بے حد خوش تھی لیکن میری خوشی شاید چند پلوں کی ہی تھی ۔ بس ایک پل اور تمام خواہشات تمام خوشیاں ملیا میٹ ہو چکی تھی ۔ اس رات شوکت میرے پاس آیا اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے ۔ جیسے ہی وہ قریب ہوا مجھے اس سے عجیب سی ہمک محسوس ہوئی اس کی آنکھیں لال انگارہ کے معنی تھی ۔ اور اسے کوئی ہوش نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اسے کیا کہنا چاہیے کیوں کہ وہ شراب کے نشے میں دھت تھا ۔

اسی نشے میں اس نے زندگی کی اذیت ناک شروعات کی تھی ۔ صبح ہونے تک مجھے لگا میرے اندر کی بانو کی موت ہوگئی ہے ۔ اور یہ جو بت نظر آرہا ہے وہ صرف دنیا کی خانہ پری کے لئے ہے ولیمے میں میری سہیلیاں مجھے منہ دکھائی کے تحفےکا پوچھتی رہیں ۔ اور میں میک اپ کی تہہ کے نیچے نیل و نیل چہرہ لئے ان کو جھوٹی مسکراہٹ کے ساتھ مطمئن کرتی رہی ۔ اس دن میری زندگی کا ایک نیا

اسی نشے میں اس نے زندگی کی اذیت ناک شروعات کی تھی ۔ صبح ہونے تک مجھے لگا میرے اندر کی بانو کی موت ہوگئی ہے ۔ اور یہ جو بت نظر آرہا ہے وہ صرف دنیا کی خانہ پری کے لئے ہے ولیمے میں میری سہیلیاں مجھے منہ دکھائی کے تحفےکا پوچھتی رہیں ۔ اور میں میک اپ کی تہہ کے نیچے نیل و نیل چہرہ لئے ان کو جھوٹی مسکراہٹ کے ساتھ مطمئن کرتی رہی ۔ اس دن میری زندگی کا ایک نیا باب شروع ھوا ۔

اس باب کے ہر ورق پر صرف دکھ ہی دکھ تھا ۔ شوکت کی اماں ہماری شادی کے چند ماہ بعد ہی زندہ رہیں ۔ اور ان کے جانے کے بعد میں بے حد تنہا ہوگی ۔ وہاں پر ڈھائی سالہ برکت کی ذمہ داری بھی مجھ پر آ گری ۔ دوسری جانب میں بھی میں امید تھی شوکت کا بھی آپ ہی چلن تھا ۔ وہ سارا دن رکشہ چلاتا اور شام کو چوہدریوں کے ڈیرے پر چلا جاتا ۔ وہاں شراب کباب کی محفل جمتی اور وہ روز ہی شراب کے نشے میں گھر آتا ذرا ذرا سی بات پر مجھے دھتکار کر رکھ دیتا ۔

برکت نے اب باتیں کرنا شروع کردی ہو مجھ سے اٹیچ میں بہت تھا ۔اس رات میرا 14 سالہ دیور ہی میرا شوہر بن بیٹھا

کیوں کہ میں بالکل ماں کی اس کا خیال رکھتی تھی ۔ اب جب شوکت مجھ پر ہاتھ اٹھاتا تو اپنی کمزور سی آواز میں نہیں نہیں کہتا اور آکر اس کا ہاتھ روکنے کی کوشش کرتا ۔ ایسے میں وہ مجھے بہت پیارا لگتا تھا یوں لگتا تھا جیسے میرا اس تپتے صحرا میں کوئی اپنا ہے ۔ جو مجھے ہر دکھ ہر پریشانی سے بچانا چاہتا ہے اور میرے ظلم کا بدلہ لینا چاہتا ہے ۔ پھر ایک دن شوکت مجھے مار کر ادھ موا کر کے خود گالیاں دیتا گھر سے چلا گیا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.