
رانگ نمبر پر لڑکی بن لڑکوں سے فلرٹ کرتا ایک رات میں گھر آیا تو میری نظر بیوی کے بستر پر پڑی
نام تو اس کا قاسم تھا لیکن اسے قاسو کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ لاری اڈے کا ماحول ہی ایسا تھا کہ ہر کسی کا نام بگاڑ کر بلایا جاتا تھا ۔ پینتس سال قاسو کی لاری اڈے میں چھوٹی سی پرچون کی دکان تھی ۔ دکان اس کی چلتی تھی یا نہیں مگر وہ خود چلتا پھرتا زندہ انسان تھا ۔ اکثر بسیں اور ویگنیں تھوڑی دیر کیلئے اس کی دکان کے پاس رکتیں تو وہ دکان سے اٹھ کر مختلف آئٹمز کی آواز لگاتا۔ اس طرح کچھ سواریاں اپنی مطلوبہ اشیاء بتا دیتیں تو وہ گاڑی میں بیٹھی سواریوں کو فروخت کردیتا ہے ۔ قاسو خود تو بہت ہی تیز ترار اور حوشیا ر چلاک بندہ تھا جبکہ اس کی چھبیس سالہ بیوی نازلی بہت سیدھی سادی شریف اور معصوم تھی
صرف آٹھ جماعتیں پاس تھی ۔ مگر تھی بلا کی حسین اور خوبصورت سب سے بڑی بات اس کی آواز بڑی سریلی اور دل موہ لینے والی تھی ۔ نازلی نے غریب گھرانے میں جنم لیا اور غربت زدہ ماحول میں پرورش پائی ۔ دوسری لڑکیوں کی طرح خواب تو اس کے بھی بہت اونچے تھے ۔ مگر یہاں خواب کب پورے ہوئے ہیں جونہی نازلی کی عمر بیس یا اکیس سال کی ہوئی تو اسے قاسو کے پلے باندھ دیا گیا ۔قاسو کا آگے پیچھے کوئی نہ تھا تو نازلی ساس نندوں دیورانیوں کے جھنجھٹ سے آزاد تھی ۔ ایک کمرہ باتھ روم باورچی خانہ اور چھوٹے سے کچن پر مشتمل کرائے کے مکان میں قاسو کے ساتھ اسے رہتے ہوئے پانچ سال ہوگئے تھے جہاں اسے کوئی دکھ تکلیف نہ تھی ۔نازلی سارا دن گھر میں اکیلی رہتی گھرکے کام نپٹا کر تیسرے درجے کے عشقیہ رسالے پڑھتی جو کہ وہ اپنی ہی ایک سہیلی لاڈو جوکہ پڑوسن میں تھی
اس سے لے آتی لاڈو اس کی بہت گہری سہیلی تھی ۔ ایک دن قاسو اپنی چیزیں بیچنے کیلئے بس میں داخل ہوا تو اس کی نظر سیٹ کی پچھلی طرف لکھے موبائل نمبر پر پڑی جس کے ساتھ لکھا ہوا تھا پیار کی تلاش۔قاسو نے کچھ سوچ کر وہ نمبر یاد کرلیا اور دکان میں آکر اپنے موبائل میں محفوظ کرلیا ۔ قاسو کے ذہن میں شرارت آئی ۔ رات کو جب گھر آیا تو اس نے کھانا کھا کر نازلی سے کہا وہ ایک نمبر ملا رہا جب اگلا بندہ کال اٹینڈ کرے تو صرف ہیلو ہیلو رخسانہ بول کر اپنی آواز سنانی ہے اور کچھ نہیں کہنا ۔ نازلی نے پوچھا معاملہ کیا ہے قاسو کہنے لگا اس بندے کو یقین دلانا ہے کہ یہ قاسو کانمبر نہیں ۔ جب قاسو نے نمبر ملایا تو تیسری یا چوتھی گھنٹی پر اس بندے نے کال اٹینڈ کرلی تو قاسو نے فوراً موبائل نازلی کو پکڑالیا وہ ہدایت کے مطابق ہیلو رخسانہ بولنے لگی چند سیکنڈ کے بعد قاسو نے اس کے ہاتھ سے موبائل لیکر کاٹ دیا اس کی توقع کے عین مطابق ایک منٹ کے بعد جی کون اور کس سے بات کرنی ہے کا میسج آگیا تو قاسو نے جواب دیا میں نازیہ ہوں اور اپنی سہیلی رخسانہ سے بات کرنی تھی ۔ مگر سگنل کیوجہ سے آواز نہیں آرہی تھی
اس بندے نے جواب دی جی رخسانہ کا نمبر نہیں ہے قاسو نے فوراً میسج کا جواب بھیجا اوہ سوری جی لگتا ہے رانگ نمبر مل گیا اگلے بندے کونازلی کی سریلی آواز سن کر یقین ہوگیا کہ یہ نمبر کسی لڑکی کا ہے تو وہ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑگیا اور میسج پر میسج کرنے لگے گا۔ قاسو نازیہ بن کر اس لڑکے کے میسجز کے جواب دینے لگا پہلے اس نے عورتوں کی طرح خوب نخرے کیے غصہ کیا اور اسے منع کیا کہ میسج نہ بھیجے وہ لڑکا کب بعض آنیوالا تھا وہ تو خود لڑکی یا عورت کے نمبر کی تلاش میں تھا ۔ یہ رانگ نمبر اپنے آپ ہی مل گیا تھا تو اسے ہاتھ سے جانے کیسے دیتا ۔رات گیارہ بجے تک کافی تکرار اور لڑکے کی منت کے بعد نازیہ کی اس سے دوستی ہوگئی ۔اس لڑکے نے اپنا نام یاسر بتایا وہ اٹھائیس سال کا کنوارہ لڑکا تھا دیہات کا رہنے والا تھا اس کی بہت ساری زمینیں تھی وہ لڑکی یا عورت سے دوستی کا خواہش مند تھا ۔
اتفاق سے اس کی دوستی لڑکی کیساتھ نہ ہوسکی ۔ یاسرسیدھا سادھا سا لڑکا تھا کاسو نازیہ بن کر بتایا وہ شادی شدہ چھبیس سال کی لڑکی ہے اس کا خاوند شقی مزاج ہے اور ساس بہت ظلم کرتی ہے قاسو یاسر سے بہت سارا بیلنس اورپیسے منگواتا اور چٹ پٹی کھانے کی چیزیں اور نازلی کیلئے سوٹ وغیرہ لیکر آتا ہے نازلی جب پوچھتی تو کہتا کہ میری جان تو بس عیش کر سوچا مت کر ۔ نازلی کے پرزور اصرار پر ایک دن قاسو نے اسے ساری بات بتا دی کہ یہ چکر اور معاملہ ہے قاسو نے کہا کہ نازلی تم جتنی لگاوٹ سے بات کرو گی وہ اتنے ہی زیادہ پیسے بھیجا کرے گا۔ ایک دن قاسو نے یاسر کا ملایا اور موبائل نازلی کو پکڑا کر ہدایت کی کہ خوب پیار اورمحبت سے بات کرنا نازلی پوری بات سمجھ چکی تھی گھٹیا درجے کہ عشقیا رسالے پڑھ کر اسے بھی عاشقانہ جملے آہی گئے تھے جیسے ہی یاسر نے کال اٹینڈ کی اورنازلی نے بات کرنا شروع کی اسی وقت قاسو کا کوئی ملنے والا آگیا تو وہ ملنے چلا گیا جبکہ نازلی بات کرتی رہی ۔ دس منٹ کے بعد قاسو اس سے فارغ ہوکرکمرے میں آیا تو نازلی نے کہا اچھا یاسر پھر بات ہوگی میرے شوہر گھر آگئے ہیں
یہ کہہ کر کال کاٹ دی اور موبائل قاسو کو پکڑا دیا ۔ اگلے دن یاسر نے قاسو کو تین ہزار روپے ایزی پیسہ بھیجے قاسو خوش تھا کہ وہ یاسر کو بے وقوف بنا کر پیسے لوٹ رہا تھا اس کا پروگرام تھا مزید پیسے لیکر کھیل ختم دیگا اور سم بند کرادیگا ۔ اس سے پہلے ہی یاسر کا موبائل بند ملنے لگا وہ میسج بھیجتا لیکن نمبر پاور آف ملتا قاسو پریشان ہوگیا کہ مفت کی آمدنی بند ہوگئی تھی ۔ایک دن قاسو رات کو گھر آیا تو نازلی گھر میں نہیں تھی کہ وہ سمجھا کہ شاید محلے میں کسی کے گھر گئی ہے وہ پورے دو گھنٹے نازلی کا انتظار کرتا رہا نازلی کا پتہ نہ تھا نازلی کے پاس موبائل نہ تھا اس نے سوچا محلے میں آس پڑوس جاکر پوچھتا ان کے گھر میں تو نہیں ہے۔قاسو پریشان تھا آج پہلی بار وہ گھر میں موجود نہ تھی ۔ وہ سوچوں میں گم تھا کہ موبائل بجنے لگا قاسو نے کال اٹینڈ کی ۔
کال کرنے والے نے سلام کیا قاسو نے جواب دیا اور کہا قاسو تم گھر پہنچ گئے ہوگے اور نازلی کو گھر میں نہ پاکر پریشان ہورہے ہوگے تم کون ہو اس نے کہا قاسو میں یاسر بول رہا ہوں نازلی میرے پاس بیٹھی ہے اس سے بات کرو نازلی کی آواز سنائی دی اس نے قاسو سے کہا کہ وہ نازلی ہے اور اس کا گھر ہمیشہ کیلئے چھوڑ آئی ہے۔کیا بکواس کررہی ہو نازلی کہنے لگی اسے یاسر سے سچ مچ پیار ہوگیا ہے تم نے یاسر کو بے وقوف بنانے کیلئے جو کھیل شروع کیا اس کا اینڈ ہونا تھا یاسر بہت پیار کرنے والا انسان ہے بہت امیر ہے وہ ا س سے عشق کرتا ہے اور مجھے چوہدرائن بنا کر رکھے گا۔ یاسر نے کہا کہ مسٹر قاسو مجھے پیار کی تلاش تھی وہ مجھے مل گیا میں ط لا ق کے کاغذات بھجوارہا ہوں اس پر سائن کردینا۔
Leave a Reply