“سالی آدھے گھر والی”یہ مثال تو سب نے سنی ہو گی،مگر کوئی یہ نہیں جانتا ہوگا یہ مثال کب اور کہاں سے رائج ہوئی۔اور اس کی حقیقت کیا ہے۔

لاہور(ویب ڈیسک) معاشرے میں ایک جملہ مشہور ہو گیا ھے۔ سالی (بیوی کی بہن) تو آدھی گھر والی ہوتی ھے۔ یہ ایک غلط سوچ ھے۔اصل میں س جملہ کی شروعات برِصغیر سے ہوئی مگر اس جملہ کے پیچھے ایک عقیدہ چھپا ھے

جس کا تعلق ہندو دھرم سے ہے۔ہندوؤں کے قدیم عقیدے کے مطابق ایک عورت پر ایک سے زیادہ مردوں کا اختیار ہو سکتا ھے اور سالی سے متعلق یہ عقیدہ رہا ھے کہ جب کسی عورت کی شادی کسی مرد سے ہو جائے تو اس عورت کی بہن (سالی) پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،جس میں اپنی بہن کی عدم موجودگی میں اس کے خاوند کے بنیادی حقوق ادا کرنا ہوتا ھے۔

ان ذمہ داریوں کی بنا پر اسے “آدھی گھر والی” کہنا شروع کر دیا گیا۔ دوسرا عقیدہ یہ ہے کہ مگر اس کے ساتھ ہندو دھرم میںسالی کا ایک الگ مقام ھے، جس بنا پر اگر ایک مرد کی بیوی راضی ہو تو اس کی بہن سے اس کے خاوند کے گہرے تعلقات قائم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ھے۔ ہندو دھرم اس طرح کے بہت سے واقعات سے بھرا ہوا ھے

حتیٰ کہ کچھ کتب میں تو ہندو دیوتاؤں کے کچھ ایسے واقعات بھی درج ہیں جس میں سالی کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کرنا بھی درج ھے۔کچھ کتب کے مطابق سالی کے ساتھ غیرمناسب تعلقات بھی قائم کیے گئے ہیں جسے شوہر کا حق بتلایا گیا ھے اور چونکہ ہندو دھرم کی تاریخ میں اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا اسی بنا پر سالی کو *آدھی گھر والی* کا لقب بھی دیا گیا۔ اب رہی بات اسلام میں بہنِ نسبتی (سالی) کی اس کے بہنوئی کے لیے کیا حیثیت ھے، تو خوب سمجھ لیجئے “کوئی حیثیت نہیں”۔ وہ آپ کی نامحرم ھے اور اس سے نظریں نیچی رکھنا آپ پر اور اس کا آپ کے سامنے چہرے سمیت پردہ کرنا “فرض” ھے۔اس کے بعد اب اس بات کی ذرہ بھی جگہ نہیں بنتی کہ بہنِ نسبتی (سالی) آدھی گھر والی ھے۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.