عورت نے آس پاس دیکھا اور شرماتے ہوئے بولی کہ حکیم صاحب مجھے مردانہ کمزوری ہے

ایک دور دراز کے گاؤں میں ایک حکیم چلتا پھرتا کہیں سے آنکلا اور اپنی دکان بنا کر بیٹھ گیا اس گاؤں کےلوگوں کو علاج معالجے کی کوئی سہولت میسر نہ تھی اس لیے اس کا کام خوب چل نکلا ۔ کچھ ہی دنوں بعد حکیم نے یہ بات محسوس کر لی۔ ان سادہ لوح دیہاتیوں کے پاس میرے علاوہ کوئی معالج نہیں ہے لہذا مجھے خوب فائدہ اٹھانا چاہیے اب جیسے ہی کوئی گاہک اس کے پاس آتا۔ حکیم اس سے خوب پیسے بٹورتا اور دوا کے نام پر اس کو میٹھی

گولیاں کوٹ کر دے دیتا دیہاتیوں کا چونکہ اس پر یقین بن چکا تھا اس لیے ان میں اکثر کو آرام بھی مل جاتا تھا۔ کرتے کرتے حکیم نے بہت سی دولت جمع کر لی گاؤں میں ایک چالاک عورت رہتی تھی جس کو سارے گاؤں والے ماسی ہی کہتے تھے ماسی چلتی پھرتی ریڈیو تھی ہر خبر پر نظر رکھنا اور پھر آگے پہنچانا اس کا پسند ید ہ کا م تھا۔ ماسی کی شروع سے ہی حکیم پر گہر ی نظر تھی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ کوئی حکیم نہیں بلکہ فراڈیا ہے جو حکیم بن کر لوگوں کو لوٹتا ہے لیکن اس کو حکیم کے خلاف کاروائی کرنے کا کوئی موقع نہیں مل رہا تھا۔ ایک شدید گر م دوپہر جب گاؤں کے سارے لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے اونگھ رہے تھے تو ماسی اپنے گھر سے نکلی اور گرم لو سے بچتی بچاتی حکیم کے پاس پہنچ گئی ۔ حکیم نے ماسی کو کچے مٹکے کا ٹھنڈا پانی پلایا۔ اور آنے کا مقصد دریافت

Sharing is caring

Leave a Reply

Your email address will not be published.